طاہر شادانی
طاہر شادانی(۱۹۱۶ء۔۱۹۷۰ء)کا اصل نام محمد صدیق ہے۔ شادانی پسرورپیدا ہوئے ۔آپ نے یونیورسٹی اورنٹیل کالج لاہور میں شادان بلگرامی اور حافظ محموود شیرانی سے کسبِ فیض حاصل کیا۔ ان کی ساری زندگی تعلیم وتعلم میں گزری۔ تعلیم سے فراغت کے بعد محکمہ تعلیم سے وابستہ ہو گئے۔ ۱۹۸۲ء میں سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔ آپ نے ضیا محمد ضیا اور حفیظ صدیقی کی رفاقت میں پسرور میں حلقہ ارباب ذوق کے نام سے ادبی حلقہ قائم کیا۔ (۶۸۲)
طاہر شادانی نے اردو ادب میں شاعری کے ساتھ ساتھ تدوین اور ترجمے میں بھی گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ آپ کا کلام ’’فنون‘‘ ،’’شام و سحر‘‘ ،’’اقرار‘‘ ،’’الہلال‘‘،تحریریں ،’’سیارہ‘‘،اور ’’شاخسار‘‘ کے علاوہ دیگر ملکی سطح کے رسائل و جرائد میں چھپتا رہا۔ آپ پنجاب ٹیکسٹ بورڈ لاہور سے بھی وابستہ رہے۔ اور چھٹی سے دسویں تک اردو کی درسی کتابیں مرتب کیں۔ اردو قواعد و انشا کے حوالے سے بھی شادانی نے علمی کتابیں تالیف کیں۔ آپ کا صرف ایک شعری مجموعہ’’شعلہ نمناک‘‘ ایوانِ ادب لاہور سے ۲۰۰۰ء میں ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ ان کا بہت سا شعری کلام مختلف رسائل و جرائد میں بکھرا پڑا ہے۔
طاہر شادانی نے اپنے شعری مجموعے ’’شعلہ نمناک‘‘ کا آغاز حمدوں سے کیا ہے۔ لیکن شادانیؔ کی یہ حمدیں صرف روایت کاتتبع نہیں ہیں۔ حمد و نعت کی طرف ان کا ذہنی میلان ابتدا سے تھا۔ شادانی کی شاعری پر اقبال کے اثرات واضح طورپر محسوس کیے جا سکتے ہیں ۔ان کی حمدوں میں دعا کا وہی انداز ہے ۔جوا قبال کے ہاں ہے اقبال نے اپنی نظم دعا میں اﷲ سے نیک انسان بننے کی دعا مانگی ہے۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری